منگل 30 دسمبر 2025 - 14:03
حضرت علیؑ کی زندگی؛ خدمتِ خلق کی اعلیٰ مثال

حوزہ/امام علیؑ، امامُ المسلمین اور اسلامی تاریخ کی عظیم ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ آپؑ اپنی بے مثال شجاعت، عدل و انصاف، علم و حکمت اور تقویٰ و پرہیزگاری کے باعث نہ صرف عالمِ اسلام، بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک روشن اور ہمہ گیر نمونہ ہیں۔ آپؑ کی شخصیت جغرافیائی، مذہبی اور زمانی حدود سے ماورا ہے، اور آپؑ کے افکار و سیرت ہر دور میں اہلِ فکر و دانش کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔

تحریر: محدثہ بتول

حوزہ نیوز ایجنسی|

مقدمہ:

امام علیؑ، امامُ المسلمین اور اسلامی تاریخ کی عظیم ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ آپؑ اپنی بے مثال شجاعت، عدل و انصاف، علم و حکمت اور تقویٰ و پرہیزگاری کے باعث نہ صرف عالمِ اسلام، بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک روشن اور ہمہ گیر نمونہ ہیں۔ آپؑ کی شخصیت جغرافیائی، مذہبی اور زمانی حدود سے ماورا ہے، اور آپؑ کے افکار و سیرت ہر دور میں اہلِ فکر و دانش کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔

یہ مضمون امام علیؑ کی حیاتِ مبارکہ کے مختلف پہلوؤں، خصوصاً خدمتِ خلق کے عظیم تصور اور اس کے عملی مظاہر کو اجاگر کرنے کی ایک علمی کوشش ہے۔

ولادت اور ابتدائی زندگی:

امام علیؑ کی ولادت ہجرت سے 23 سال قبل، 13 رجب المرجب کو مکہ مکرمہ میں خانۂ کعبہ کے اندر ہوئی۔ یہ واقعہ آپؑ کی عظمت و رفعت کی ایک منفرد علامت ہے، کیونکہ تاریخِ انسانی میں آپؑ واحد شخصیت ہیں جنہیں کعبۂ مقدس کے اندر ولادت کا شرف حاصل ہوا۔ (شیخ مفید، الإرشاد)۔

آپؑ کے والد حضرت ابوطالبؑ قریش کے معزز سردار اور رسولِ اکرم کے مخلص حامی تھے، جبکہ والدہ حضرت فاطمہ بنتِ اسدؑ ایمان، تقویٰ اور ایثار کی اعلیٰ مثال تھیں۔ معتبر روایات کے مطابق، کعبہ کی دیوار معجزانہ طور پر شق ہوئی تاکہ حضرت فاطمہ بنتِ اسدؑ اس مقدس مقام میں داخل ہو سکیں (کلینی، الکافی)۔

امام علیؑ کا بچپن رسولِ اکرم کی براہِ راست سرپرستی میں گزرا، جس نے آپؑ کی شخصیت کو اخلاقِ نبوی، انسانی ہمدردی اور اعلیٰ اسلامی اقدار سے مزین کر دیا۔

ابتدائی خدمات اور غزوات میں کردار:

بچپن ہی سے امام علیؑ نے اسلام کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ آپؑ سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں شامل تھے۔ شبِ ہجرت رسولِ اکرم کی جگہ بستر پر سو کر اپنی جان کو خطرے میں ڈالا اور قریش کی سازش کو ناکام بنایا۔
غزوۂ اُحد میں آپؑ نے نبی اکرم کے زخموں کی مرہم پٹی کی، علمِ اسلام کو تھاما اور جانثاری کی مثال قائم کی۔ غزوۂ خندق میں عمرو بن عبدود کو شکست دی، غزوۂ خیبر میں قلعے کا دروازہ اکھاڑ کر شجاعتِ علوی کا ناقابلِ فراموش مظاہرہ کیا، اور بدر، اُحد اور خیبر سمیت متعدد معرکوں میں علم بردار اور محافظِ رسول رہے۔

یمن میں تبلیغِ اسلام کے لیے بھیجے گئے تو حکمت و بصیرت کے ذریعے ایسی کامیابی حاصل کی جو خالد بن ولید کی ناکامی کے بعد اسلام کے لیے ایک عظیم فتح ثابت ہوئی۔

عدل و انصاف اور دورِ خلافت:

اپنے دورِ خلافت میں امام علیؑ نے بیت المال کو عوام کی امانت قرار دیا اور اس کی تقسیم میں کامل مساوات کو ملحوظ رکھا، یہاں تک کہ اپنے صاحبزادوں کے ساتھ بھی کسی قسم کی رعایت نہ برتی۔ ذاتی مفادات کو ہمیشہ اجتماعی فلاح پر قربان کیا۔
مشہور مغربی مفکر تھامس کارلائل نے کہا: "علیؑ سے محبت کرنا انسانیت کا فطری تقاضا ہے"

آپؑ نے عدالتی نظام کو مستحکم کیا، مظلوموں کے حقوق بحال کیے اور حتیٰ کہ مخالفین بھی آپؑ کے عدل و انصاف سے متاثر ہوئے۔

خدمتِ خلق کی عملی مثالیں:

امام علیؑ کی خدمتِ خلق محض حکومتی سطح تک محدود نہ تھی بلکہ ذاتی زندگی میں بھی اس کی روشن مثالیں ملتی ہیں۔ غریب، یتیم، بیوہ، غلام اور مسافر—سب آپؑ کی توجہ اور شفقت کے مرکز تھے۔

رات کی تاریکی میں امداد:

روایات میں آتا ہے کہ امام علیؑ رات کے اندھیرے میں روٹی اور کھجوروں کا تھیلا اٹھا کر کوفہ کی گلیوں میں نکل جاتے اور محتاجوں تک خوراک پہنچاتے۔ جب امام حسنؑ و امام حسینؑ نے اس بارے میں سوال کیا تو فرمایا: "کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ کے غریب بندوں کی کفالت میری ذمہ داری ہے؟" (ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ)
قحط کے زمانے میں خود فاقہ کرتے مگر دوسروں کو سیر کرتے۔

یتیموں اور بیواؤں کی کفالت:

آپؑ نے مختلف ادوار میں اپنی ذاتی کمائی سے یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کی اور کبھی بیت المال کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا۔ نہج البلاغہ میں ہے کہ بیوہ عورتوں اور یتیموں کی خبرگیری جنت کی ضمانت ہے۔ ایک بیوہ عورت کی شکایت پر فوراً اس کی مالی مدد کی اور مستقل وظیفہ مقرر فرمایا۔

غلاموں کی آزادی:

امام علیؑ نے اپنی محنت کی کمائی سے ہزاروں غلام خرید کر آزاد کیے۔ رسولِ اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان ہے: "جو شخص کسی غلام کو آزاد کرے، اللہ اس کے ہر عضو کے بدلے ایک عضو کو جہنم سے آزاد فرمائے گا"(کلینی، روضۃ الکافی، ج 2، ص 181)

زراعت، آب رسانی اور عمرانی خدمات:

زراعت امام علیؑ کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ امیرالمؤمنینؑ خود بیل چلاتے اور زمین کی نعمتوں کو عام کرتے تھے۔ آپؑ نے کھجور کے باغات لگائے، قناتیں کھدوائیں، خصوصاً قناتِ "ینبع" جو زائرین کے لیے وقف تھی۔

آپؑ نے زرعی ترقی، سڑکوں کی تعمیر اور عوامی سہولیات کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔
وقف، زہد اور ذاتی قربانیاں:

امام علیؑ کی سالانہ آمدنی کا بڑا حصہ غرباء پر صرف ہوتا تھا۔ کبھی کبھی گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنی تلوار فروخت کر دیتے، مگر خود سادہ زندگی بسر کرتے۔ آپؑ کے وقف نامے آج بھی انسانی خدمت کے درخشاں نمونے ہیں۔

علم، حکمت اور شہادت:

امام علیؑ کو "بابُ مدینۃ العلم" کہا گیا۔ قرآن و حدیث کے گہرے عالم تھے اور آپؑ کے اقوالِ حکمت آج بھی رہنمائی کا سرچشمہ ہیں۔

عدل و حق کی یہی استقامت بالآخر 21 رمضان 40 ہجری کو مسجدِ کوفہ میں آپؑ کی شہادت کا سبب بنی، جب عبدالرحمن بن ملجم نے آپؑ پر قاتلانہ حملہ کیا۔

نتیجہ:

امام علیؑ کی پوری زندگی خدمتِ خلق، عدل، ایثار اور زہد کی لازوال مثال ہے۔ آپؑ کی سیرت ہر دور کے انسان کے لیے مشعلِ راہ ہے، جو ذاتی مفادات سے بلند ہو کر انسانیت کی فلاح اور سماجی انصاف کا درس دیتی ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha